Tuesday, January 1, 2019

آج سے کل تک پیسے کا غلامان دنیا میں بہت ذیادہ حلات کو سنگین کرنے میں لگے ہںوئے تھے لکین  کچھ تاریخ کے ریکارڈ میں بھی انا شروع ہںوئے وہ وقت کے انسان کی خون کو خریدار بھی تھے اور بہت سے پروخت میں اول پوزیشن میں آئے ایک ایسا امتحان  کامیابی کے طرف دوڑنے میں تھے جو دنیا میں ایک مجاہد کے تحت تمامی دنیا نظر میں عالمی مسلمان بھی تھے ہم تو بلکل اس کے نظر میں فیل تھے بس وقت ساتھ ساتھ ٹایم گزرتا جارہا تھا اور ہمارے خون سے ہر دیوار ہر سڑک ہر عبادت گاہ رنگین تھے وہ بھی سرخ کلر میں تھے  جیسا وہ کیا کہتے ہے بول گیا ہا یاد آیا سرخ خون کی طرح مجھے افسوس والے بھی نہیں تھے صرف فتوا ولے کچھ لوگ تھے اس نے تو بلکل میرا ساتھ نہیں دیا بس فتوا کو زور دیا اور وہ بلکل یاد نہیں تھا اس کا یاداش توڑا کمزور اور پلائنینگ کے طرح تھے میں نے توڑا یاد کیا اور یہ بتایا کہ یاد کرو ٹیک سے جب تم اپنا مکان کے دیوار  بنانے میں مصروف تھے اور تمہارے کام میں مداخلت شروع ہںونے لگے کسی نے روڈ پر آدمی کو کڑا کئے اور اس کے منہ پر برھیک کپڑا رکھ دیا اور اس کو کہا تھا تمہارا داڑھی سنت پر برار نہیں ہے اور کام میں رکاوٹ پیدا ہںوئے تھے  اور اچانک ایک آدمی بھی نظر آئے اور آپ کو کہا مجھے بچاو مجھے بچاو اپنے اس کو بچانے کیلئے سارے چار دیواری گرائے دیں اور تم کو مکمل خریدنے میں تھے پھیر دوسرے طرف تمہارے روف میں کچھ اور بھی پیدا ہںوئے اس نے ایک الگ خون کے خریداری میں مصروف تھے وہ تو ملکل عجیب تھے
اور ہر جگہ جگہ دعوت میں تھے وہ کہا سے آئے ہم بھی حیران ہںوئے وقت سے وہ ظاہیر ہںوئے اشارہ اپنو میں سے تھے
   ہم کون ہے ہم کہا سے آئے بس دوستوں کیا بتاؤ میں ایک لاچار پشتون ہںوں جو اپنا سوچ آپ سے شیر کیا اور دوسرے سے لوگوں سے آپ  خود شیر کرو ہاں ایک بات یاد رکھو آپنا گھر کی دیواریں ہم نے خود بنانا ہیں جس کے ہاتھ سے گھر کابو میں نہیں تھا وہ تو؛ ابھی اور گرارہیے اور ہم نے اتفاق سے بنانا ہے
(وہ اس نعرے کے ساتھ لروبر یو آفغان ) آج کے غلام کو. کل تک فتواہ سے روکانا لازمی ہیں

ده ژوندون ستړې ستومانه ورزې په پښتون خواه وطن

ژونــد او ســتړې ســــتومانې ورزې په پښتونخواه وطن خاوره ده غیره خلق ظلم او جبرانه تشدود په کور کلی کې دمذهب تګ لارې شریعت او ده قانون سازي ...